کبھی چھپایا نہیں جو گناہ مجھ سے ہوا
بتا دیا جو سفید و سیاہ مجھ سے ہوا

یہ بارِ ہجر بھی تیرے سپرد کر دیتا
بس اک یہی نا مرے کج کُلاہ مجھ سے ہوا

Ø+ضورِ صبØ+ اجالوں Ù†Û’ مجھ Ú©Ùˆ پیش کیا
غرورِ منزلِ شب گردِ راہ مجھ سے ہوا

ترے خلاف گئی آخری شہادت بھی
کہ منØ+رف بھی ہوا تو گواہ مجھ سے ہوا

تو جانتا ہی نہیں تھا مزاجِ ہمسفری
یہی بہت ہے جو اتنا نباہ مجھ سے ہوا

بس ایک تو تھا جسے رائیگاں کیا میں نے
اور ایک عشق تھا جو بے پناہ مجھ سے ہوا

سلیمؔ جیت بھی میری تھی ہار بھی میری
عجب مقابلۂ عزّ و جاہ مجھ سے ہوا
Ù+Ù+Ù+